خطبات

خطبہ (۱۵۰)

(۱٥٠) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۵۰)

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الدَّالِّ عَلٰی وُجُوْدِهٖ بِخَلْقِهٖ، وَ بِمُحْدَثِ خَلْقِهٖ عَلٰۤی اَزَلِیَّتِهٖ، وَ بِاشْتِبَاهِهِمْ عَلٰۤی اَنْ لَّا شَبَهَ لَهٗ. لَا تَسْتَلِمُهُ الْمَشَاعِرُ، وَ لَا تَحْجُبُهُ السَّوَاتِرُ، لِافْتِرَاقِ الصَّانِعِ وَ الْمَصْنُوْعِ، وَ الْحَادِّ وَ الْمَحْدُوْدِ، وَ الرَّبِّ وَ الْمَرْبُوْبِ.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے کہ جو خلق (کائنات سے) اپنے وجود کا اور پیدا شدہ مخلوقات سے اپنے قدیم و ازلی ہونے کا اور ان کی باہمی شباہت سے اپنے بے نظیر ہونے کا پتہ دینے والا ہے۔ نہ حواس اسے چھو سکتے ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔ چونکہ بنانے والے اور بننے والے، گھیرنے والے اور گھرنے والے، پالنے والے اور پرورش پانے والے میں فرق ہوتا ہے۔

اَلْاَحَدِ لَا بِتَاْوِیْلِ عَدَدٍ، وَ الْخَالِقِ لَا بِمَعْنٰی حَرَكَةٍ وَّ نَصَبٍ، وَ السَّمِیْعِ لَا بِاَدَاةٍ، وَ الْبَصِیْرِ لَا بِتَفْرِیْقِ اٰلَةٍ، وَ الشَّاهِدِ لَابِمُمَاسَّةٍ، وَ الْبَآئِنِ لَابِتَرَاخِیْ مَسَافَةٍ، وَ الظَّاهِرِ لَابِرُؤْیَةٍ، وَ الْبَاطِنِ لَا بِلَطَافَةٍ.

وہ ایک ہے لیکن نہ ویسا کہ جو شمار میں آئے، وہ پیدا کرنے والا ہے لیکن نہ اس معنی سے کہ اسے حرکت کرنا اور تعب اٹھانا پڑے، وہ سننے والا ہے لیکن نہ کسی عضو کے ذریعہ سے اور دیکھنے والا ہے، لیکن نہ اس طرح کہ آنکھیں پھیلائے، وہ حاضر ہے لیکن نہ اس طرح کہ چھوا جا سکے، وہ جدا ہے نہ اس طرح کہ بیچ میں فاصلہ کی دوری ہو۔ وہ ظاہر بظاہر ہے مگر آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ذاتا پوشیدہ ہے نہ لطافت جسمانی کی بنا پر۔

بَانَ مِنَ الْاَشْیَآءِ بِالْقَهْرِ لَهَا، وَ الْقُدْرَةِ عَلَیْهَا، وَ بَانَتِ الْاَشْیَآءُ مِنْهُ بِالْخُضُوْعِ لَهٗ، وَ الرُّجُوْعِ اِلَیْهِ.

وہ سب چیزوں سے اس لئے علیحدہ ہے کہ وہ ان پر چھایا ہوا ہے اور ان پر اقتدار رکھتا ہے اور تمام چیزیں اِس لئے اُس سے جدا ہیں کہ وہ اس کے سامنے جھکی ہوئی اور اس کی طرف پلٹنے والی ہیں۔

مَنْ وَّصَفَهٗ فَقَدْ حَدَّهٗ، وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ، وَ مَنْ عَدَّهٗ فَقَدْ اَبْطَلَ اَزَلَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: »كَیْفَ« فَقَدِ اسْتَوْصَفَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: »اَیْنَ« فَقَدْ حَیَّزَهٗ.

جس نے (ذات کے علاوہ) اس کیلئے صفات تجویز کئے اس نے اس کی حد بندی کر دی اور جس نے اسے محدود خیال کیا وہ اسے شمار میں آنے والی چیزوں کی قطار میں لے آیا اور جس نے اسے شمار کے قابل سمجھ لیا اس نے اس کی قدامت ہی سے انکار کر دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ ’’کیسا‘‘ ہے وہ اس کیلئے (الگ سے) صفتیں ڈھونڈھنے لگا اور جس نے یہ کہا کہ وہ ’’کہاں‘‘ ہے اس نے اسے کسی جگہ میں محدود سمجھ لیا۔

عَالِمٌ اِذْ لَا مَعْلُوْمٌ، وَ رَبٌّ اِذْ لَا مَرْبُوْبٌ، وَ قَادِرٌ اِذْ لَا مَقْدُوْرٌ.

وہ اس وقت بھی عالم تھا جب کہ معلوم کا وجود نہ تھا اور اس وقت بھی ربّ تھا جب کہ پرورش پانے والے نہ تھے اور اس وقت بھی قادر تھا جب کہ یہ زیر قدرت آنے والی مخلوق نہ تھی۔ [۱]

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

قَدْ طَلَعَ طَالِعٌ، وَ لَمَعَ لَامِعٌ، وَ لَاحَ لَاۗئِحٌ، وَ اعْتَدَلَ مَآئِلٌ، وَ اسْتَبْدَلَ اللهُ بِقَوْمٍ قَوْمًا، وَ بِیَوْمٍ یَّوْمًا، وَ انْتَظَرْنَا الْغِیَـرَ انْتِظَارَ الْمُجْدِبِ الْمَطَرَ.

ابھرنے والا ابھر آیا، چمکنے والا چمک اٹھا، ظاہر ہونے والا ظاہر ہوا اور ٹیڑھے معاملے سیدھے ہو گئے۔ اللہ نے جماعت کو جماعت سے اور زمانہ کو زمانہ سے بدل دیا ہے۔ ہم اس انقلاب کے اس طرح منتظر تھے جس طرح قحط زدہ بارش کا۔

وَاِنَّمَا الْاَئِمَّةُ قُوَّامُ اللهِ عَلٰی خَلْقِهٖ، وَعُرَفَآئُهٗ عَلٰی عِبَادِهٖ، لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ عَرَفَهُمْ وَ عَرَفُوْهُ، وَلَا یَدْخُلُ النَّارَ اِلَّا مَنْ اَنْكَرَهُمْ وَ اَنْكَرُوْهُ.

بلاشبہ آئمہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حاکم ہیں اور اس کو بندوں سے پہچنوانے والے ہیں۔ جنت میں وہی جائے گا جسے ان کی معرفت ہو اور وہ بھی اسے پہچانیں اور دوزخ میں وہی ڈالا جائے گا جو نہ انہیں پہچانے اور نہ وہ اسے پہچانیں۔

اِنَّ اللهَ تَعَالٰی خَصَّكُمْ بِالْاِسْلَامِ، وَ اسْتَخْلَصَكُمْ لَهٗ، وَ ذٰلِكَ لِاَنَّهُ اسْمُ سَلَامَةٍ، وَ جِمَاعُ كَرَامَةٍ، اصْطَفَی اللهُ تَعَالٰی مَنْهَجَهٗ، وَ بَیَّنَ حُجَجَهٗ، مِنْ ظَاهِرِ عِلْمٍ، وَ بَاطِنِ حِكَمٍ، لَا تَفْنٰی غَرَآئِبُهٗ، وَ لَا تَنْقَضِیْ عَجَآئِبُهٗ، فِیْهِ مَرَابِیْعُ النِّعَمِ، وَ مَصَابِیْحُ الظُّلَمِ. لَا تُفْتَحُ الْخَیْرَاتُ اِلَّا بِمَفَاتِیْحِهٖ، وَ لَا تُكْشَفُ الظُّلُمٰتُ اِلَّا بِمَصَابِیِحِهٖ، قَدْ اَحْمٰی حِمَاهُ، وَ اَرْعٰی مَرْعَاهُ، فِیْهِ شِفَآءُ الْمُسْتَشْفِیْ، وَ كِفَایَةُ الْمُكْتَفِیْ.

اللہ نے تمہیں اسلام کیلئے مخصوص کر لیا ہے اور اس کیلئے تمہیں چھانٹ لیا ہے اور یہ اس طرح کہ اسلام سلامتی کا نام اور عزت انسانی کا سرمایہ ہے۔ اس کی راہ کو اللہ نے تمہارے لئے چن لیا ہے اور اس کے کھلے ہوئے احکام اور چھپی ہوئی حکمتوں سے اس کے دلائل واضح کر دئیے ہیں۔ نہ اس کے عجائبات مٹنے والے ہیں اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں، اسی میں نعمتوں کی بارشیں اور تاریکیوں کے چراغ ہیں، اسی کی کنجیوں سے نیکیوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اسی کے چراغوں سے تیرگیوں کا دامن چاک کیا جاتا ہے۔ خدا نے اس کے ممنوعہ مقامات سے روکا ہے اور اس کی چراگاہوں میں چرنے کی اجازت دی ہے۔ شفا چاہنے والے کیلئے اس میں شفا اور بے نیازی چاہنے والے کیلئے اس میں بے نیازی ہے۔

۱؂اس خطبہ کا پہلا جز علم الٰہیات کے اہم مطالب پر مشتمل ہے جس میں خلق کائنات سے خالق کائنات کے وجود پر استدلال فرماتے ہوئے اس کی ازلیت و عینیت صفات پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ جب ہم کائنات پر نظر کرتے ہیں تو ہر حرکت کے پیچھے کسی محرک کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے جس سے ایک سطحی ذہن والا انسان بھی یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کوئی اثر مؤثر کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ چند دنوں کا ایک بچہ بھی اپنے جسم کے چھوئے جانے سے اپنے شعور کے دھندلکوں میں یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی چھونے والا ہے جس کا اظہار وہ آنکھوں کو کھولنے یا مڑ کر دیکھنے سے کرتا ہے تو پھر کس طرح دنیائے کائنات کی تخلیق اور عالم کون و مکاں کا نظم و نسق کسی خالق و منتظم کے بغیر مانا جا سکتا ہے؟۔

جب ایک خالق کا اعتراف ضروری ہوا تو اسے موجود بالذات ہونا چاہیے، کیونکہ ہر وہ چیز جس کی ابتدا ہے اس کیلئے ایک مرکز وجود کا ہونا ضروری ہے کہ جس تک وہ منتہی ہو۔ تو اگر وہ بھی کسی موجد کا محتاج ہوگا تو پھر اس موجد کیلئے سوال ہو گا کہ وہ از خود ہے یا کسی کا بنایا ہوا اور جب تک ایک موجود بالذات ہستی کا اقرار نہ کیا جائے کہ جو تمام ممکنات کیلئے علۃ العلل ہو، عقل علت و معلول کے نامتناہی سلسلوں میں بھٹک کر سلسلہ موجودات کی آخری کڑی کا تصور بھی نہ کر سکے گی اور تسلسل کے چکر میں پڑ کر اسے کہیں ٹھہراؤ نصیب نہ ہوگا اور اگر خود اسی کو اپنی ذات کا خالق فرض کیا جائے تو دو صورتوں سے خالی نہیں ہوگا یا تو وہ معدوم ہوگا یا موجود، اگر معدوم ہو گا تو معدوم کسی کو موجود نہیں بنا سکتا اور اگر موجود ہو گا تو اسے دوبارہ موجود کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوتے، لہٰذا اسے ایسا موجود ماننا پڑے گا جو اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہ ہو اور اس کے ماسوا ہر چیز اس کی محتاج ہو اور یہی احتیاج کائنات اس سرچشمہ وجود کے ازلی اور ہمیشہ سے برقرار ہونے کی شاہد ہے۔

اور اس کے علاوہ چونکہ ہر چیز تغیر پذیر ہے، محل و مکان کی محتاج ہے اور عوارض و صفات میں ایک دوسرے کے مشابہ ہے اور مشابہت کثرت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور وحدت اپنی آپ ہی نظیر ہے، اس لئے کوئی چیز اس کی مثل و نظیر نہیں ہو سکتی اور ایک کہی جانے والی چیزوں کو بھی اس کی یکتائی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ ہر اعتبار سے واحد و یگانہ ہے۔ وہ ان تمام چیزوں سے منزہ و مبرا ہے جو جسم و جسمانیات میں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ نہ وہ جسم ہے، نہ رنگ ہے، نہ شکل ہے، نہ کسی جہت میں واقع ہے اور نہ کسی محل و مکان میں محدود ہے۔ اس لئے انسان اپنے حواس و مشاعر کے ذریعہ اس کا ادراک و مشاہدہ نہیں کر سکتا، کیونکہ حواس انہی چیزوں کا ادراک کر سکتے ہیں جو زمان و مکان اور مادہ کے حدود کی پابند ہوں۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دیکھا جا سکتا ہے اس کیلئے جسم مان لینا ہے اور جب وہ جسم ہی نہیں ہے اور نہ جسم کے ساتھ قائم ہے اور نہ کسی جہت و مکان میں واقع ہے تو اس کے دیکھے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی یہ پوشیدگی ان لطیف اجسام کی طرح نہیں ہے کہ جن سے ان کی لطافت کی وجہ سے نگاہیں آر پار ہو جاتی ہیں اور آنکھیں انہیں دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں۔ جیسے فضا کی پہنائیوں میں ہوا، بلکہ وہ ذاتی طور پر پوشیدہ ہے۔ البتہ اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے۔

وہ دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے، لیکن آلات سماعت و بصارت کا محتاج نہیں، کیونکہ اگر وہ دیکھنے سننے کیلئے اعضا کا محتاج ہو گا تو اس کی ذات اپنے کمالات میں خارجی چیزوں کی دست نگر ہو گی اور بحیثیت ذات کامل نہ رہے گی، حالانکہ وہ ہر لحاظ سے کامل ہے اور اس کا کوئی کمال اس کی ذات سے الگ نہیں، کیونکہ ذات کے علاوہ الگ سے صفات ماننے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذات ہو گی اور کچھ صفتیں اور اس ذات و صفات کے مجموعہ کا نام ہوگا ’’خدا‘‘ اور جو چیز اجزا سے مرکب ہو وہ اپنے وجود میں اجزا کی محتاج ہوتی ہے اور ان اجزا کو مرکب کے ترکیب پانے سے پہلے موجود ہونا چاہیے۔ تو جب اجزا اس پر مقدم ہوں گے تو وہ ہمیشہ سے موجود اور ازلی کیونکر ہو سکتا ہے، جبکہ اس کا وجود اجزا سے متاخر ہے۔ حالانکہ وہ اس وقت بھی علم و قدرت و ربوبیت لئے ہوئے تھا جبکہ کوئی چیز موجود نہ تھی، کیونکہ اس کی کوئی صفت خارج سے اس میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ جو صفت ہے وہی ذات ہے اور جو ذات ہے وہی صفت ہے۔ اس لئے اس کا علم اس پر منحصر نہیں ہے کہ معلوم کا وجود ہو لے تو پھر وہ جانے، کیونکہ اس کی ذات حادث ہونے والے معلومات سے مقدم ہے اور نہ اس کی قدرت کیلئے ضروری ہے کہ مقدور کا وجود ہو تو وہ قادر سمجھا جائے، کیونکہ قادر اسے کہتے ہیں جو ترک و فعل پر یکساں اختیار رکھتا ہو اور اس کیلئے مقدور کا ہونا ضروری نہیں اور یونہی ربّ کے معنی مالک کے ہیں اور وہ جس طرح معدوم کا اس کے موجود ہونے کے بعد مالک ہے اسی طرح موجود کے پردہ عدم میں ہونے کی صورت میں اسے موجود کرنے پر اختیار رکھتا ہے کہ چاہے اسے معدوم رہنے دے اور چاہے اسے وجود بخش دے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button